شفیق خلش

دعوے لبوں پہ جن کے، ہمیشہ وفا کے ہیں
دل پر ہمارے زخم، اُنہی کی سزا کے ہیں

ہجرت، ملال، بے وطنی، بیکسی، الم
سارے ثمر یہ اپنی ہی شاخِ دعا کے ہیں

اُن کی وفا کی بات کا کرکے یقین ہم
یہ سوچتے ہیں کیا بھلا معنی جفا کے ہیں

افسوس اُن کو ہوگا ہمیں یاد کرکے کل
مسرور آج، ہم پہ جو تہمت لگا کے ہیں

کرتے ضرُور دِل کا کوئی اِنتظام ہم
گر جانتے، کہ اُن کے ارادے دغا کے ہیں

ہر بار اُن کی جُھوٹ پہ آجاتا ہے یقیں
الفاظ یُوں زباں پہ وہ لاتے سجا کے ہیں

کچھ دیر قرُبتوں کا مزہ لوُٹنے تو دیں
اطوار چاہتوں میں بھی جن کے قضا کے ہیں

یہ دُوریاں دبا نہ سکِیں بے قراریاں
بیٹھے دیارِ غیر میں دِل کو دبا کے ہیں

جاتی کہاں ہیں جی سے وہ فِتنہ نُمائیاں
اب بھی فسُوں نِگاہوں میں اُن کی ادا کے ہیں

کب رحم روز و شب کو مرے حال پر یہاں
آلام ہجرتوں کے تو دُگنی سزا کے ہیں

کیونکر اُٹھائیں حشر پہ دل کا مُعاملہ
طالب تو ہم جہاں میں ہی روزِ جزا کے ہیں

الزام زندگی پہ خلش کیا دھریں، کہ جب !
آزار ہم پہ سارے ہی دِل کی خطا کے ہیں

شفیق خلش