تُم نہیں آئے تھے جب ، تب بھی تو تم آئے تھے
آنکھ میں نور کی اور دِل میں لہو کی صورت
درد کی لَو کی طرح ، پیار کی خوشبو کی طرح
بے وفا وعدوں کی دِلداری کا انداز لئے
تُم نہیں آئے تھے جب ، تب بھی تو تم آئے تھے
رات کے سینے میں مہتاب کے خنجر کی طرح
صُبح کے ہاتھ میں خورشید کے ساغر کی طرح
شاخِ خوں رنگِ تمنا میں گھلے درد کی طرح
تم نہیں آئو گے جب ، تب بھی تو تم آئو گے
یاد کی طرح ، دھڑکتے ہوئے دِل کی صورت
غم کے پیمانہءِ سرشار کو چھلکاتے ہوئے
برگ ہائے لب و رُخسار کو مہکاتے ہوئے
زلف در زلف بِکھر جائے گا پھر رات کا رنگ
شبِ تنہائ میں بھی لطفِ ملاقات کا رنگ
روز لائے گی صبا کوئے صباحت سے پیام
روز لائے گی سحر تہنیتِ جشنِ فراق
آئو آنے کی کریں بات کہ تم آئے ہو
تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو موجود تھے تم
تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو تم آئے تھے
تم نہیں آئو گے جب تب بھی تو تم آئو گے
آئو آنے کی کریں بات کہ تم آئے ہو
اب تم آئے ہو تو میں کونسی شے نظر کروں
کہ میرے پاس بجز مہر و وفا کچھ بھی نہیں
ایک دِل ایک تمنا کے سِوا کچھ بھی نہیں